اپنے وقت اور شان کا نشان بنی نظر آتی ہیں لودھی علم دوست تھا اور درویشوں سے محبت کرتا تھا آگرہ میں ایران عرب ترکی عراق کے بڑے بڑے مشائخ فقہاء کو بڑی احترام سے بلایا تواضع کی انکی معالی امداد کی حکومتی مشورے انسے لیتا، دیکھتے ہی دیکھتے آگرہ علم و ادب نیذ اہلِ صفاء کا مرکز بن گیا سید رفع الدین محدث رح کی مسجد اور خانقاہ اسی دور کی تعمیر ہے آج یہ محلہ "بیلن گنج" کہلاتا ہے جو انگریزوں کے زمانے میں ایک افسر کے نام "بیلون" پر بدل دیا گیا تھا اس دور میں یہاں بڑی بڑی حویلیاں ہوا کرتی تھی آصف خاں (جو شاہ جہاں کے خاص درباری تھے ) نے یہاں کئی حویلیاں بنوائں اور بھی نہ جانے کتنے محلات تھے جو جو پہلے 1857 ء میں بعد میں 1947 میں حالات اور تغیوراتِ زمانہ کا شکار ہوئی خیر
دور بدلتے گئے لودھیوں کی حکومت جاتی رہی بادشاہ بابر نے آگرہ کا رخ کیا یہاں کی آب و ہوا اور اپنی حکومت کے طرز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا دار السلطنت بنا دیا اکثر آگرہ میں وقت گزارتا تھا کئی مسجد اور باغ منوائے جس میں سے آرام باغ آج بھی موجود ہے ایک مسجد بھی احتماد الددولہ کے صدر دروازے کے سامنے واقعہ ہے آگرہ اکبر کے دور میں ہندوستان کا مرکزی شہر بنا اکبر نےسلطنتِ مغلیہ کو مظبوت کرکہ ایک مرکز دارالسلطنت آگرہ سے باندھ دیا اسی عہد میں بہت سارے محل عمارات اور حکومتی دفتر بھی بنوائے الغرض ایک پورا نیا شہر وجود میں آگیا جسے فتح پر سیکری کہا جاتا ہے یہ جگہاں آگرہ کی شہری بساوٹ سے 36 کلومیٹر دور واقعہ ہے جس میں حکمت یہ تھی کے راجپوت راجا جو ہمیشہ مغل حکومت کو کمزور کرنے کے درپہ تھے آئے دن نئی سازش رچتے تھے راجستھان کی سرہد اسی شہر سے متصل تھی ان کی نگرانی یہیں سے ممکن ہو سکتی تھی آگرہ میں لال قلعہ بھی اکبر کی ہی بنائی عمارت ہے یہیں سے اکبر نے پورے ہندستان پر حکومت کی اسی شہر میں اکبر کا ادب پروان چڑا جو بعد میں پورے ملک کی شان اور پہچان ہو گیا مزہب و زبان کے عالم کو اس دربار میں عزت ملتی تھی" آگرہ اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں تک ہندوستان کی راجدھانی رہا یہی دور حکومتِ مغلیہ کا زریں دور بھی ہے " زبان اردو کی بنیاد بھی اسی قلعہ سے اکبر کے دربار میں پڑی عہدے شاجہانی میں اس زبان میں اور نکھار آیا فوج کام نام " اردو معلہ"تھا جس کے معنی لشکر ہے ان کی زبان جو تمام ملک کے لوگوں کے ایک جہاں اکھٹٹے ہونے اور اپسی کلام سے شکلے اردو اور نامِ اردو سے جانی جانے لگی یہ سرکاری زبان جو اس وقت فارسی تھی کے بنا پرقائم ہوئی جس میں عربی, فارسی سنسکرت ,ترکی, پوربھی برج بھاشا دکھنی اودھی کجھ کجھ بنگالی زمان شامل ہے ،
اردو کے نظریاتی اور سیاسی سماجی پہلو پہ نظر ڈالی جائے تو اکبر اور آگرہ اس کے بنیادی عناصر نظر آئنگے اردو کا پہلا نام ہندوستانی زمان ہے جس کے داغ بیل حضرت امیر خسرو رح(جو حضرت سید نظام الدین اولیاءرضہ کے محبوب مرید اور شاگرد تھے ) کے ادب سے پڑتی ہے بحر حال آگرہ اردو کے بانی شہر ہونے کا مدلل اور صادق داوے دار ہے اودھ, دکھن پنجاب بہار میں اردو کے لئے سنگِ بنیاد رکھنے والے شعراء ادیب ولی اورنگاآبادی، قلی قطب شاہ ولی دکھنی خواجہ میر درد ملاّ وجہی وغیرہ پیدا ہوئے اردو ارتقاء میں ان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے ہمارا مقصد تو شہر آگرہ اور اردو کا تعلق بیان کرنا ہے جو اپنے سیاسی اور سماجی ارتقائی بنا پر اہم ہے اردو ادب کی تاریخ لکھنے والے کسی طرح اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے
میر تقی" میر" مرزا غالب خواجہ مرزا "مظہر" جانِ جانہ مصطفٰے خاں "شیفتہ"سراج الدن خان "آرزو" "ماہر" اکبرآبادی ,نبی بخش" حقیر" نظیر" اسیر " رہا " رئیس شاہ سید امجد علی" اصغر " شاہ سید مظفر علی "اللہی " رح ابو الحسن "شیدائی" سعادت علی "سعید" اکبرآبادی مرزا "حاتم" علی بیگ حکیم محمود علی خاں ماہر اکبرآبادی "نثار اکبرآبادی
نظام الدین "دلگیر" شاہ "سیماب"اکبرآبادی علامہ حضرت سید "میکش" اکبرآبادی رح مخمور سعیدی ، لطیف لام ل اکبرآبادی مخمور اکبرآبادی شاہ" اکبر "دانا پوری ابو العلائی آگرہ کے ایسے شعرا ء ہیں جن کا کلام دنیا بھر میں مشہور ہوا اور ایک عالم ان کے نام سے واقف ہے اور نہ جانے کتنے ادیب شعراء ہیں جو آگرہ کی تہزیب کی ہی طرح بن پہچانے بن منوائے اپنی درویشانہ خو لئے تاریکی میں اس سرزمین میں سو رہے ہیں
جن میں سے بعاز آگرہ 1950 کے بعد باہر جا کر آگرہ کا نام روشن کرتے رہے ملاحاظہ کیجئے
علامہ سیماب اکبرآبادی
اعجاز حسین صدیقی اکبرآبادی
"صبا" اکبرآبادی
رانا اکبرآبادی
اختر اکبرآبادی
ماسٹر بشارت علی خان ارمان آفریدی اکبرآبادی
فضل الدین اثر اکبرآبادی
فیاض حسین سیفی اکبرآبادی
سید عباس علی سرور اکبرآبادی
محمد صادق ضیاء اکبرآبادی
شمشاد حسین منظر صدیقی
مرزا عاشق حسین بزم آفندی اکبرآبادی ،نجم آفندی اکبرآبادی وغیرہ
-سید فیض علی شاہ, آگرہ
مآخذو مراجع
آینئہ اکبری : ابو الفضل
دربارے اکبری: محمد حسین آزاد
شعر آگرہ نمبر 1936 : مدیر سیماب اکبر آبادی
بوستانِ اخیار : سعید احمد مارہروی
No comments:
Post a Comment