حضرت شیخ سید امجد علی شاہ قادری رحمہ اللہ علیہ
فخر الاولیاء سید السند محب الفقراء والغربا شیخ المشائخ طریقئہ قادریہ حضور سید امجد علی شاہ جعفری القادری رحمہ اللہ علیہ
آگرہ کی صوفیانہ تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود آگرہ، شری کیشن کے دور سے محبت اور روحانیت کا مرکز رہا لیکن مسلم صوفیانہ روایات کی ابتداء سلطان سکندر لودی سے ہوتی ہے جس نے آگرہ کو دار السلطنت بنا کر از سر نو تعمیر کیا یہ رونق اکبرِ اعظم اور شاہ جہاں تک آتے اتے دوبالا ہوگئی ویسے تو پورے ہندوستان میں صوفیاء اس عہد میں کثرت سے ہوئے ہیں لیکن آگرہ کے لئے یہ دور سب سے سنہرا دور تھا سلسلہ قادریہ کے بڑے بڑے بزرگ جس میں امیر سید اسمٰعیل قادری حضرت سید شاہ رفیع الدین محدث قادری (954ھ) میر سید جلال الدین قادری (983ھ)،حضرت غوث گوالیاری و فرزند ضیاء الدین قادری شطاری( 1005ھ) سید عبد القادر بخاری (1050ھ) میر سید عبد اللہ تبریزی مشکیں قلم( 1035ھ) شامل ہیں آگرہ کو حضور غوث اعظم کا فیض بخشتے رہے پہر وہ دور بھی آیا کے آگرہ سے دار السلطنت دہلی ہو گیا اور دہلی میں ہی بزرگوں کو قیام رہنے لگا آگرہ صوفیہ سے تو نہیں لیکن نظروں سے ضرور دور ہو گیا مغلوں کے زوال مراٹھوں کی حکومت اور جاٹوں کے حملوں نے آگرہ اور آگرہ والوں کو بہت مایوس کر دیا پھر 1857 ء اور 90 نوے سال بعد 1947 میں دھیرے دھیر شہر کے شرافاء و نجابہ جاتے رہے لیکن حضرت سید امجد علی شاہ کے دادا حضرت اہبراہم قطب مدنی نے جو سلسلہ قادریہ کا درخت لگایا تھا وہ حضور غوث اعظم کی روحانی توجعہ سے سید امجد علی شاہ اور ان کے خاندان میں لگاتار بڑ کر قادری سلسلہ کی روحانیت سے خلق خدا کو چھاوں دیتا رہا ہے سید مظفر علی شاہ الہی اکبرآبادی اپکے نبیرہ سبط ہیں اور حضرت سید محمد علی شاہ قادری نیازی علامہ میکش اکبرآبادی بھی آپکے نبیرئے چہارم ہیں گویا سید شیخ امجد علی شاہ قادری رحمہ اللہ علیہ رضوان حضرت قبلہ میکش صاحب کے دادا کے دادا ہیں
حضرت سید امجد علی شاہ قادری صاحب کا خاندانی پسے منظر - حضرت نسباً جعفری سادات میں سے ہیں آپ کے جدِ چہرم قطبِ مدینہ حضرت سید ابراہیم مدنی حسینی جعفری قادری رضی اللہ عنہ جو آستانئہ سرورے کائینات حضور سرکارے دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مجاور شیخِ وقت تھے مستجاب الدعوات بزگ تھے یہ حسینی خاندان آپنے علم و عمل تقوٰی و پرہیزگاری کے لئے مشہور تھا آپ کا نسب پچیس واسطوں سے حضرت اسحٰق محتمن ابنِ امام المسلیمین جانشینِ رسول حضرت امام جعفر صادق عہ تک پہنچتا ہے
حضرت سید ابراہیم قطب مدنی حسینی جعفری صاحب رضہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر اپنا محبوب شہر چھوڑ کر تبلیغِ دین اور حکمِ رسول کی تکمیل میں ہندوستان آگئے گجرات کے راستے ہوتے ہوئے اکبرآباد(آگرہ)آئے اسیی شہر کو اپنا مسکن بنا یا جو اس وقت ہندوستان کا دارالحکومت تھا نیذ، یہ آگرہ کا سنہرا دور بھی یعنی عہدِ جہاں گیر سلیم ابنِ شہنشاہ اکبر کا عہد جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور اور خوش حال ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ نظم و اطوار میں انتہائی نفیس حکومت تھی انگریز مورخوں کے مطابق سب سے بڑی اکانومی تھی بہرحال حضرت نے دربار شاہی سے کسی طرح کا کوئی رابطہ قائم نہیں فرمایا نا کبھی التفات کی نظر ڈالی یہی صوفیاء کا طریقہء اول روز سے رہا ہے البتہ جہاں گیر کا ایک سپاہ سالار خان جہاں لودھی آپ کی شہرت سن کر معتقد ہوا اور حلقہ مریدین میں شامل ہو گیا ایک مسجد اور حویلی آپکے لئے تعمیر کرائی جس میں کتب خانہ اور مدرسہ بھی تھا یہ جگہاں آگرہ میں پہلے لودھی خان کا ٹیلہ کہلاتی تھی انگریزوں کے زمانے میں اس علاقے کا نام " فری گنج پڑ گیا جو شہر کے بیچ میں واقع ہے
حضرت سید امجد علی شاہ صاحب کے والد حضرت سید احمد اللہ جعفری قادری صاحب کے زمانے تک یہیں سے سلسلئہ رشد و ہدایت چلتا رہا پھر وہ اپنے استاد مولانا شاہ عادل صاحب کے پاس تشریف لے آئے جہاں ایک مسجد و مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمایا یہ جگہاں شاہی مسجد اور مدرسہ افضل خاں کے نام سے مشہور تھی اب "پنجہ مدرسہ" کہلاتا ہے یہیں حضرت شاہ عادل صاحب کا مزار بھی شاہی مسجد کے سحن میں ہے اس کے سامنے حضرت احمد اللہ جعفری قادری صاحب کا مزار بھی ایک اونچے چبوترے پر واقع ہے
حضرت سید امجد علی شاہ صاحب نے اپنے والد سے تربیت و تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے حضرت محمد قاسم قادری صاحب اپنے خسر (سسور) سے علومِ مخفی حاصل کئے جو حضرت سید رفیع الدین صفوی محدث رحمہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے سید رفیع الدین صاحب سلسلہ قادریہ کے مشہور شیخ اور ہندوستان کے معروف عالمِ دین و محدث ہیں آپ سندِ حدیث میں ابنِ حجر عسقلانی کے دو واستوں سے شاگرد ہیں،
سلسلہ نقشبندیہ چشتیہ میں پہلے حضرت کو مولانا ضیاء الدین بلخی سے بیعت و خلافت حاصل تھی حضرت مولانا ضیاء الدین بلخی نے ہی وصال سے قبل فرمایا تھا اب تمہیں حضرت غوث پاک کے صاحبزادے سے ملےگا جو عنقریب تشریف لائیں گے اور مدارِ فقراء ان کی زبان پر ہوگا
علم: درس و تدریس کا شوق اور علم کا میلان اشد درجہ موجود تھا علم معقول و منقول میں درجی کمال حاصل تھا وقت کے پڑے علاماء سے تعلیم و تربیت حاصل کی علم اصولِ تفسیر علم حدیث و فقہ میں سند حاصل تھی تصوف میں اس درجہ محو تھے کے بعد کے زمانِ میں تصوف ہر علم پر غالب آگیا تھا اکثر محویت اور بےخودی طاری رہتی تھی
ہم اثر : حضور قطبِ عالم شاہ نیاز بے نیاز رضہ سے آپکو خاص محبت اور ربط تھا قصرِ عارفاں میں ہے کہ آپ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا سلسلہ قادری میں داخل ہونے اور حضور شاہ بغدادی صاحب سے بیعت ہونے کے بعد طریقت کا رشتا اور قریب ہو گیا تھا
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی صاحب سے بھی خط و کتابت کا سلسلہ قائم رہا
شاہ محمدی "بےدار" اکبرآبادی فریدی فخری نظامی فارسی کے معروف شاعر اور حضرت فخر الدین فخرِ پاک رضہ کے خلیفاء تھے حضرت امجد علی شاہ صاحب نے آپ کی ایک غزل پر تضمین کہی ہے جو دیوان میں شامل ہے یہ حضرت کے بہت عزیز اور مخلص رفقاء میں سے تھے اکثر ملاقات کا سلسلہ رہتا تھا
'بزمِ آخر' میں مفتی انتظام اللہ شہابی نے لکھا ہے کہ آگرہ میں اردو کا پہلا مشاعرہ حضرت مولانا امجد علی شاہ صاحب نے ہی کرایا تھا جس میں اسد اللہ غالب اور نظیر اکبر آبادی بھی شریک ہوئے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کے حلقہ قربت میں عالم ادیب اور صوفیاء سب ہی شامل تھے شاہ اکبر دانا پوری صاحب کے دادا و پیر حضرت قاسم ابوالعلائی صاحب نے بھی اپنی تحریروں میں حضرت کا ذکر کیا ہے انوار العارفین میں محمد حسین مرادآبادی نے حضرت سید انوار الرحمٰن بسمل صاحب نے ساداتِ صوفیاء میں قصرِ عارفاں میں محمد رحمٰن چشتی صاحب نے گلشنِ بے خار میں مصطفیٰ خاں شیفتہ نے نغمئہ عندلیب میں حکیم غلام قطب الدین خان باطن سوانح عمری غوثِ پاک مفتی انتظام اللہ صدیقی تزکرۃ اللہی مولانا ابو الحسن فریدآبادی یادگارے شعراء میں مسٹر اسپرنگر نسبِ معصومی حکیم معصوم علی تاریخِ مشائخِ قادریہ میں ڈاکٹر یحییٰ انجم نے
فرزندِ غوثِ اعظم میں حضرت سید محمد علی شاہ صاحب میکش اکبرآبادی نے مفصل زکر فرمایا ہے
سلسلہ قادریہ میں بیعت - حضرت امجد علی شاہ صاحب خود تحریر فرماتے ہیں : جب فرزند محبوبِ سبحانی حضرت شاہ عبداللہ بغدادی قادری آگرہ تشریف لائے اور محلہ تاج گنج میں قیام فرمایا تو میں حاضرِ خدمت ہوا اور قدم بوس ہوا حضرت نے میرا سر اپنے سینے لگا لیا اور مجمع کثیر میں فرمایا اے میرے بیٹے امجد علی میں اگرے میں اپنے جد حضرت غوث اعظم کے حکم سے اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں خرقئہ بزرگانِ کلاہ عَلم اور خلافت عنایت کروں میں حضرت غوث پاک کے حکم کی اتباع میں یہاں تک پہنچا ہوں تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت بے مانگے مل رہی ہے یہ سن کر خوشی کی حد نہ رہی اور مجھ پر ایک بے خودی طاری ہوگئی جب مجھے ہوش آیا تو میں نے عرض کیا کہ اے میرے آقا کمزور چیونٹی سے پہاڑ کا بوچھ کیسے برداشت ہوگا حضرت نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا : واللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون(قرآن)
یہ منصب میرے جد حضرت غوث اعظم قدس سرہُ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے میرے ہاتھ سے لو اور قدرتِ قادریہ کا تماشا دیکھو حضرت غوث پاک نے ایک دُزدِ روسیاہ کو ایک نظر میں قطبِ وقت بنا دیا تھا تم تو شریفِ قوم اور صاحبِ علم ہو سید ہو اور درویشوں سے نسبت رکھتے ہو تمہارے والد بھی اسی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اگر تمہیں اپنی شفقت کی وجہ سے اس نعمت سے نوازا گیا تو کیا بعیدہے پھر گیارویں کے دن مجھے طلب فرمایا اور شرافاء نجبا اور مشائخ کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اپنے ہاتھ سے مجھے خرقئہ خلافت پہنایا اور اپنے سر مبارک کی کلاہ میرے سر پر رکھی اور علمِ قادری اور خلافت نامہ جو میرے پاس موجود ہے عطا فرمایا اور مریدوں کو حکم دیا کہ ان کو میرا قائم مقام اور نائب سمجھتے ہوئے ہر مہینے کی گیارویں اور خاص کر بڑی گیارویں کی فاتحہ میں ان کے معاون رہیں اور میرے جد کی نیاز ان کو پہچایں بال برابر ان کے حکم سے انحراف نہ کریں جو کوئی ان کے خلاف ہوگا وہ میرے اور میرے جد نزرگ وار کے خلاف ہے بھر رام پور میں طلب فرما کر علم اور خلتِ خاص عطا فرمائی، " حضرت امجد علی شاہ صاحب آخری وقت تک اپنے شیخ حضور بغدادی صاحب کی پاس حاضر ہوتے رہے اور روحانی تعلیم میں حضرت کی نظرِ کرامت سے مستفیض ہوتے رہے
حضرت شیخ مولوی احمد علی چشتی خیرابادی قصرِ عارفاں میں تحریر کرتے ہیں ۔
'ایک دن حضرت سید اپنے حجرہ خاص میں تشریف فرما تھے اور آپ کا خادم آپ کے دروزے پر کھڑا تھا مولوی امجد علی صاحب اس وقت رات کا ذکر کر رہے تھے رات نصف گزرگئی تھے کہ آپ کے دل میں اچانک اپنے پیر و مرشد کی زیارت کا شوق پیدا ہوا ،بے قرار ہو کر حضور سید صاحب کے حجر کی طرف دوڑے آئے،خادم نے روکا مگر آپنے پرواہ نہ کی اور حجر کے اندر چلے گئے دیکھا کہ دو ہم شکل بزگ ایک ہی مصلے پر تشریف فرما ہیں دونوں کی نورانی شکل اور چہروں پر جاہ و جلال دیکھ کر مولوی امجد علی حیران رہگئے،خاموش ہو کر ادناً کھڑے ہو گئے بڑی مشکل سے کچھ دیر بعد اپنے آپ کو حجر سے باہر لائے صبح ہوئی تو حضرت سید نے فرمایا مولوی صاحب رات تم نے جناب غوث پاک کی زیارت کی ہے،عرض کی یا حضرت مجھے تو دونوں شکلیں آپ کی دکھائی دی تھیں۔ میں ایک دوسر میں فرق نہیں کر سکا ،مچھے یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ،کہ آپ کون تھے اور حضور غوث الاعظم کون تھے میں رعب و جلال کی وجہ سے نہ قدم بوسی کر سکا ،اور نہ ہی ڈر کی وجہ سے کچھ التجا کر سکا ۔آپنے فرمایا انشاء اللہ کچھ عرصہ بعد تمہیں قدم بوسی اور التجا کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے گی۔ ذرا کچھ عرصہ ریاضت کرنا ہوگی ،ہمارے جد امجد حضرت غوث الاعظم کی شکل و صورت ہم سے مشابہ ہے۔ مولوی صاحب ایک عرصہ تک ریاضت کرتے رہے ۔ایک دن آپ نے فرمایا مولوی صاحب آج رات کے آخری حصے میں ہمارے حجر میں چلے آنا کوئی خادم تعرض نہیں کرےگا۔آپ حجر کے درواز پر پہنچے دروازہ خود بہ خود کھل گیا اندر گئے دونوں حضرات کی زیارت ہوئی اور دونوں کو پہچان کر ہر ایک کی دست بوسی علیدہ علیدہ کی، اور قدموں میں دوزانو ہو کر بیٹھ گئے بے پناہ نعمت حاصل ہوئی ' (صفہ 374،375 )
عشقِ اہلِ بیت: سید اور صوفی باطنی شخصیت کا ایک خاصہ یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ اللہ اس کے دل میں اہلِ بیت کی فطری اور خاصی محبت ہوتی ہے حضرت سید امجد علی شاہ صاحب جدِ بزرگوار کا خون ہی مصطفوی حیدی حسنی حسینی تھا تو یہ ممکن کہاں تھا کے آپ کا دل محبتِ اہلِ بیت سے خالی ہوتا عشقِ اہلِ بیت میں سرشار رہتے امیر المومنین حضرت امام علی کرم اللہ وجہ کی شان میں فرماتے ہیں....
سلطاں نشان ہر دو جہاں مرتضٰی علی
اصلِ وجودِ کون مکان مرتضٰی علی
ہی علی دوستی امجد علی مومن پر فرض
وقتِ رخست یہ سخن مرشد مجھے فرماگیا
ہر کسی کو اہلِ عالم بیچ ہے جائے پناہ
یا علی امجد علی کو ہے تمہارا آستاں
حضراتِ حسنین کریمنین علیم سلام کی مدح میں فرماتے ہیں...
کل حب حسین و ہم حسن دارد دلِ پر خون
بیا اصغر تما شاکن بہار صحن با غم را
در مدح حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ ....
اسلام اے شہ جلاں و امیرِ عربی
جز ذات شریفِ تو بایں خوش لقبی
قادر توئی دانا توئی مشکل کشا سرور توئی
ابنِ حسن صفدر توئی یا غوث العظم الغیاث
محرم کی بڑے نذر شہر میں آپ ہی کی طرف سے ہوا کرتی تھی جس میں کثیر تعداد میں لنگر تقسیم کیا جاتا اور محافلِ منعقد ہوتیں ان دنوں آپ کی کیفیت عجیب ہوجایا کرتی تھی
اکثر خلوت میں ہی رہتے آپ نے وصیت میں بھی محرم الحرام کے لنگر اور نذر کے اہتمام کا حکم فرمایا
مسلک: صاحبان تصوف کی طرح آپکا نظریہ بھی وحدۃ الوجود ہی تھا ایک مکتوب میں جو حضرت شاہ محمدی بیدار دہلوی کے نام ہے فرماتے ہیں
جز ذاتِ خدا دریں جہاں نیست
واللہ باللہ دریں گماں نیست
بے شکل و بہ شکل اوست عالم
بے شبہ و بہ شبہ اوست آدم
( صفہ نمبر 136 ،از دیوان اردو فارسی جائیب و غرائیب سید امجد علی شاہ قادری )
ان اشعار سے اہلِ علم و دانش با خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ خاص شیخِ اکبر ابن عرابی کا نظریہ وحدۃ الوجود ہے یہ صوفینہ تعلیمات کا جز بھی یے اس پر آپ کا پوری زندگی عمل بھی رہا
اہلِ سنت حنفی المشرب، شعریت کے سختی سے پابند اور فقہ کے باریک رمز شناس سنت رسول کے پابند قرآنی حصول کے دلدادہ طریقت کو کبھی شعریت کی ڈال نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ شعریت کی بنیادی اصولوں کی پاپنبی سے تقوی زہد و ورع استقامت کی منازل طے کیں،
اخلاق: انکسار حلم و بردباری انسان دوستی کے کیئ مثالی واقعات اپکی روزمرہ کی زندگی میں وارد ہو تے تھے مسکینوں غریبوں پر انتہائی شفیق تھے سادگی کو ترجیح دیتے نفاست پسند تھے الغرض ایک روز آپ کے شیخ حضور بغدادی صاحب نے آپو کشکول جو پانی سے بھرا تھا لے جاتے دیکھا تو فرما امجد علی "فقر میں فخر اختیار کرو" حکم کی تعمیل میں آپ نے ظاہراً شہانہ طرزِ زندگی اپنا لی دل میں اخر تک قلندرانہ 'خو ' رہی آپکی خانقاہ سے ہزاروں لوگ کھانہ کھاتے اور دعاء کرتے اپنی حاجات بر لاتے تھے
ایک دیوان اور چند تحریریں آپ کی یادگار ہیں جس میں چار قصائد حضرت امام علی مرتضیٰ کرم اللہ کریم پر تین حضور غوث پاک پر اور ایک ایک حضرت بہاء الدین نقشبندی رح اور حضرت ضیا الدین بلخی رح پر ،"251 کے قریب اردو غزلیں بھی شامل ہیں اس کے علاوہ پورا دیوان فارسی میں ہے جو 2413 فارسی اشعار 915 اردو اشعار جس میں ایک مثنوی قطعات 44 رباعیات 14 قصائد پر مشتمل ہے 1266 ھ جام جمشید آگرہ سے شائع ہوا"
(صفہ نمبر 188 کتاب حضرت غوث الاعظم سوانح و تعلیمات مع تذکرہ فرزند غوث الاعظم رح مصنف حضرت سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی رح )
آپ کے خلافاء و مریدین کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے سلسلے قادریہ میں ہندوستان کے مشہور و معروف بزرگ ہیں جن سے اب تک روحانی فیض جاری ہے سجادہ نشین درگاہ حضرت سید اجمل علی شاہ جعفری قادری نیازی آپ کے سلسلئہ نسب میں چھٹی پیڑی اور موجودہ وقت میں آپکے قائم مقام اور جانشینِ نسبی و باطنی ہیں
ہر سال دو 2تاریخ کو ربع الاول میں حضرت کا عرس ہوتا ہے
٢ربع الاوّل ١۲٣۰ھ کو وصال فرمایا
لوحِ مزار پر یہ تاریخ کندہ ہے :
عارفِ کامل ولی ابنِ ولی قطبِ دیں
عالم علمِ نبی کاشفِ رازِ علی
چونکہ بہ جنت رسید جملہ ملائک بگفت
واقفِ راہِ خدا سید امجد علی
شجرہ نسب
سید امجد علی شاہ ابن سید مولانا احمد اللہ احمدی ابن سید مولوی الہام اللہ ابن سید خلیل اللہ ابن سید فتح محمد ابن سید ابراہیم قطب مدنی ابن سید حسن ابن سید حسین ابن سید عبد اللہ ابن سید معصوم ابن سید عبید اللہ نجفی ابن سید حسن ابن سید جعفر مکی ابن سید مرتضٰی ابن سید مصطفٰے حمید ابن سید عبدالقادر ابن سید عبد الصمد کاظم ابن سید عبد الرحیم ابن سید مسعود ابن سید محمود ابن سید حمزہ ابن سید عبد اللہ ابن سید نقی ابن سید علی ابن سید محمد اسد اللہ ابن سید یوسف ابن سید حسین ابن سید اسحق المدنی ابن امام المشارق و المغارب امام سید جعفر صادق ابن امام سید محمد باقر ابن امام زین العابدین سید علی بن سید الشہداء امام حسین ابن امیر المومنین امام المتقین سید علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ و علیہ اسلام
شجرہ طریقت
اللہ جل جلالہ
الٰہی سید الخلق اشرف الانبیاءوالمرسلین سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
الٰہی امیر المومنین و امام الواصلین سیدنا امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ الکریم
الٰہی امام سید شباب اہلِ جنت سیدنا حسین الٰہی سیدنا امام علی زین العابدین الٰہی امام سیدنا محمد باقر الٰہی امام سیدنا جعفر صادق الٰہی امام سیدنا موسٰی کاظم الٰہی امام سیدنا علی رضا الٰہی سیدنا معروف الکرخی الٰہی سیدنا السر سقطی الٰہی سیدنا ابی قاسم الجنعد بغدادی الٰہی سیدنا ابوبکر شبلی الٰہی سیدنا عبد الواحد التمیمی الٰہی سیدنا ابی الفرح الطرطوسی الٰہی سیدنا ابی حسن ھنکاری الٰہی سیدنا ابی سعد المبارک مخزومی الٰہی سیدنا شیخ الطریقت و معدن الشریعت و الحقیقت حضرت الغوث العظم السید شیخ عبد القادر الگیلانی الٰہی سیدنا عبد العزیز گیلانی الٰہی سیدنا محمد ھتاک الٰہی سیدنا شمس الدین الٰہی سیدنا شرف الدین الٰہی سیدنا زین الدین الٰہی سیدنا ولی الدین الٰہی سیدنا نور الدین الٰہی سیدنا درویش الٰہی سیدنا محمود الٰہی سیدنا عبد الجلیل الٰہی سیدنا عبد اللہ بغدادی الٰہی سیدنا امجد علی شاہ
(رضوان اللہ علیہ اجمعین)
اربابِ تاریخ و سیر تذکرہ نگار کی نظر میں :
قادریہ سلسلہ کے زیادہ تر تذکرہ میں آپ کا ذکر آسانی سے مل جاتا ہے اردو کے قدیم شعراء پر کلھی گئیں اکثر کتابوں میں اور خاص کر آگرہ کے صوفی بزرگ شعرا میں، آگرہ کے فارسی شعراء کے انوان سے مفتی انتظام اللہ شہابی کے مضمون میں بھی آپ کا نامِ نامی اسم گرامی شامل ہے آفتابہ اجمیر میں بھی تفصیلی بیان موجود ہے ،
آگرہ کے فاسری شعراء ۔۔۔
"اصغر اکبرآبادی ۔مولوی سید امجد علی شاہ متفی 1230ھ
عاشق چیست بیقرار ایہا
زیستن در امیدوار ایہا "
(شاعر آگرہ نمبر 1936جون ،جولائی صفہ نمبر 71 )
جناب حافظ محمد حسین مرادآبادی
سید السند محب الفقراء الغرابا شیخ المشائخ طریقئہ قادری مولوی امجد علی ابن مولوی سید احمد اللہ جعفری حضرت سید عبداللہ بغدادی کے خلیفہ اعظم تھے ان کے طریقے کے لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سید عبد اللہ ارشاد حضرت محبوب سبحانی کی تعمیل میں ان کی تعلیم کے لئے بغداد سے ہندوستان تشریف لائے تھے ان کا نسب پچیس واسطوں سے حضرت سید اسحٰق ابن امام جعفر صادق تک پہنچتا ہے
(انوار العارفین صفحہ نمبر 598 مطبع منشی نول کشور لکھنو )
حکیم قطب الدین باطن
نے اپنے تذکرے میں ان کا احوال قلمبند کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے
" اصغر و امجد تخلص مولوی امجد علی خلف مولوی احمدی زیب جدِ دہلی (آگرہ) ،اپنے فن کے استاد تھے ۔ حضرت سید عبد اللہ صاحب بغدادی کے اخص خاصان اولاد محبوب سبحانی سے تھے ،خرقہ خلافت ان کے سے تن مبارک کو پیرایہ دیگر باقی عمر کو بیچ فقر کے بسر لیگئے صدہانا قصون کے فیض انفاس متبرکہ سے استفادہ کامل لیا احقر اونکے کلام سے مستفیض ہوا اور عجب لطف پایا بندگی والد مرحوم سے بہت ربط تھا ان کا کلام انکو ضبط تھا "
(-گلستان بے خزاں (نغمئہ عندلیب ) صفحہ نمبر : 6،7 / تاریخ ادب اردو جلد دوازدہم صفحہ نمبر :459،460)
نواب مصطفٰے خاں شیفتہ
لکھتے ہیں اصغر تخلص سید امجد علی اکبرآبادی ۔ حکیم محمد میر کے جو میرے والد کے دوستوں میں تھے بڑے بھائی تھے بزرگ خاندان کے فرد تھے سید عند اللہ بغدادی علیہ الرحمۃ سے خلافت حاصل کی اور عزت وقار اور تورع کے ساتھ زندگی بسر کی.
(گلشنِ بے خار، صفحہ نمبر 81 )
حضرت سید انوار الرحمن بسمل جے پوری نقشبندی بخاری نیازی
آپ خلیفہ حضرت سید عبد اللہ بغدادی ،،،، اکابر اولیائے امت میں سے تھے اصغر تخلص فرماتے تھے حضرت عبد اللہ شاہ بحکم حضرت غوث اعظم آپکی تربیت باطن کے لئے بغداد سے تشریف لائے تھے آپ کے نبیرہ سید مظفر علی شاہ بھی آگرہ کے مشہور مشائخ میں سے تھے آپ نسباً ساداتِ جعفری میں سے ہیں اور اب تک ساداتِ میوہ کٹرہ کا حسب نسب مسلم ہے
(سادات الصوفیہ صفحہ نمبر 137)
حضرت مولانا عاشق حسین صدیقی وارثی علامہ سیماب اکبرآبادی
"سید امجد علی شاہ جعفری قادری آپ کے جدِ پنجم قطب الاقطاب مولانا سید ابرہیم قطبِ مدنی جعفری مدینہ منور سے بعہد جہانگیر آگرہ تشریف لائے خان جہاں لودی جو جہانگیری عہد کا مشہور امیر تھا آپ کا معتقد اور مرید تھا اس نے آپ کے لئے مدرسہ مسجد اور مکانات اپنے محل کے قریب تعمیر کرا دئے تھے جس ۔مقام پر یہ مکانات تھے وہ اب لودی خاں کا ٹیلہ کہلاتا ہے آپ سید عبد اللہ بغدادی رامپوری کے خلیفہ اعظم تھے ،شاعری میں اصغر تخلص فرماتے تھے، آپ کا مطبوعہ دیوان موجود ہے ، 1230 ھ میں آپ نے وفات پائی محلہ مدرسہ میں آپ کا مزار ہے"
('آگرہ کے صوفی شعراء' شاعر 'آگرہ' نمبر جون 1936 صفحہ نمبر 52 )
ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم
ہمدرد یونیورسٹی،دہلی
"آپ کو حضرت سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان سے والہانہ لگاؤ تھا جس کا اندازہ اس جوش خروش سے ہوتا ہے جس کا مظاہرہ ہر سال گیار ہویں کے موقع سے کیا کرتے تھے ،،،،،،،
آپ نے انتہائی پر وقار انداز میں زندگی بسر کی ہر ایک چھوٹے بڑے کے دل میں آپ کا بیحد احترام تھا ۔ زمانہ کے معتبر اور مستند لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا "
(تاریخ مشائخ قادریہ ،جلد دوم صفہ 215،216 )
سعید احمد مارہروی
نے بھی بوستان اخیار میں حضرت کا ذکر کئی مقام پر کیا ہے سوانح صفہ نمبر 50،51،52 پر حالتِ زندگی و مناقب وغیرہ ذکر کئے ہیں
مفتی انتظام اللہ شہابی
مہتابہ اجمیر غریب نواز میں صفحہ 106،107،108 میں 109 میں آپکے خلافاء اور سجادہ نشین دویم سید مظفر علی شاہ قادری نظامی صاحب کا ذکر صفحہ نمبر 112 پر کیا ہے
سید محمد محمود رضوی مخمور اکبرآبادی
نے اپنی کتاب نظیر نامہ میں لکھا ہے
' جناب محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی ،غزل کہنے والوں میں ،آج سر آمدِ شعرائے روزگار ہیں وحدت الوجود ' کا مسلک ان کا خاص موضوع ہے ،جناب سید امجد علی شاہ اصغر رح تین در میانی روابط کے ساتھ جناب میکش کے جد اعلٰی ہیں اصغر :
جب حسنِ ازل پردہ امکان میں آیا
بے رنگ بہ ہر رنگ ہر ایک شان میں آیا
تضمین نظیر اکبرآبادی :
وہ رنگ کہیں لعل بد خشان میں
نیلم میں کہیں گوہر غلطان میں آیا
یاقوت میں الماس میں مرجان میں آیا
جب حسن ازل پردہ امکان میں آیا
بے رنگ بہر رنگ ہر ایک شان میں آیا
امکان ایک الٰہیاتی لفظ ہے اور یہاں اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے لغوی میں نہیں امکان بالکسر افعال کے وزن پر مصدر ہے اور اہلِ حکمت کی اصطلاح میں معینہ معنی ہی رکھتا ہے ،اس جہت سے اس کو اسم معرفہ یا علم کا درجہ حاصل ہے امتناع کے تصور میں عدم لازمی ہے مگر امکان میں عدم اور وجود دونوں ضروری نہیں ، بہر حال امکان علمی اصطلاح ہے اور اصطلاح کے کسی حرف میں تغیر لانا گویا اصطلاح شکنی ہے اور ارباب علم کے نزدیک معیوب۔ جناب اصغر صوفئی با صفا اور عالمِ اجل تھے ،یہ پہلو ان کے ذہن میں موجود تھا ، میاں نظیر نے بھی جو خود اس پہلو سے آگاہ تھے حضرت اصغر کے اسوہ حسنہ کا اتباع کیا ہے
(نظیر نامہ: صفحہ 477،478 )
خلفاء اکرام
• خلیفہ فرزند اکبر و جانیشن حضرت سید منور علی شاہ قادری
• سید حکم نور الدین قادری
• سید امام الدین
• سید مولوی شریف الدین
• سید امام علی شاہ
• سید محمد وکیم
سجادگان :
حضرت سید منور علی شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید مظفر علی شاہ قادری فخری نظامی نیازی رحمۃ اللہ
حضرت سید اصغر علی شاہ قادری نیازی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید محمد علی شاہ قادری نیازی علامہ میکش اکبرآبادی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید معظم علی شاہ قادری نیازی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید محمد اجمل علی شاہ قادری نیازی مدظلہ عالی
نمونہ کلام :
مجاز سے جو حقیقت کا ہم نے کام لیا
بتوں کی دیکھ کے صورت خدا کا نام لیا
سوائے خونِ جگر کے ملی نہ اور شراب
مثالِ لال لہ بہ کف جب سے ہم نے جام لیا
صنم کو دیکھ کے محراب ابروئے خمدار
گرا تھا سجدے کو پر مچھ کو حق نے تھام لیا
قضا کے نیچے سے چھوٹا نہیں کوئی ہر گز
جو صبح اس سے بچے تو بہ وقتِ شام لیا
عجب ہم فقر کا عالم کہ یم نے یاں اصغر
خودی کو بھول گئے جب خدا کا نام لیا
--------------------------------
حب حسن ازل پردہ امکان میں آیا
بے رنگ بہ ہر رنگ ہر ایک شان میں آیا
اول وہی آخر وہی اور ظاہرو باطن
مذکور یہی آیتِ قرآن میں آیا
گل ہے وہی سنبل ہے وہی نرگسِ حیراں
اپنے ہی تماشے کس گلستان میں آیا
حرمت سے ملائک نے اسے سجدہ کیا ہے
جس وقت کے وہ صورت انسان میں آیا
مطرب وہی آواز وہی ساز وہی ہے
ہرتار میں بولا وہ ہر ایک تان میں آیا
نزدیک ہے وہ سب سے جہاں اس سے ہے معمور
جب چشم کھلی دل کی تو پہچان میں آیا
بے رنگ کے رنگوں کو یہاں دیکھ لے "اصغر"
سو طرح سے عالم کے خیابان میں آیا
----------------------------
عقل کو چھوڑ کے دل عشق کے میدان میں آ
دیکھ لے نور خدا عالم عرفان میں آ
وہی صوفی ہے کہ مسجد میں پڑھے ہے گا نماز
جام پیتا ہے وہی مجلسِ رندان میں آ
No comments:
Post a Comment