حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی سید محمد نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں " درویشی پردہ پوشی است " درویشی چھوپانے کا نام ہے اس قول مبارک کی روشنی میں طرح کی پردہ پوشی مراد ہے ایک لوگوں کے عیب چھاپانا ان کو ظاہر نہ کرنا دوسرا اپنا احوال پوشیدہ رکھنا صوفیہ اسی پر کار بند رہتے ہیں حضرت سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی رح بھی انہیں درویشوں میں ہیں جنہوں نے خود کو شاعری اور سادگی کے پردے میں چھوپایا یہی وجہ ہے کہ ان کی عام مقبولیت بحیثیت شاعر نقاد ادیب زیادہ ہوئی چہ جائے کہ شعر گوئی اور تصانیف کا موضوع تصوف ہی ہے ۔ حضرت کی زندگی جس کردار کی حامل ہے وہ ایک صاحب حال صوفی تصوف کی روایات اور وراثت کو آگے بڑھا نے والے مخلوق کے ہادی حسن خلق رکھنے والے اعلی انسانی قدریں رکھنے والے خدا پرست انسان ہی ہے
"مفکر اسّلام شیخِ طریقت مرشدنا سیدنا مولانا سید محمد علی شاہ جعفری قادری نظامی نیازی علامہ میکش اکبرآبادی رحمہ اللہ علیہ دنیائے ادب اور تصوف کی ممتاز شخصیت کا نام ہے" ہندوستان کی مشہور صوفی شخصیت اور اردو کے استاد شاعر کی حیثیت سے ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں ساتھ ہی شیخِ طریقت عالمِ دین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے یہی آپ کی مورثی پہچان بھی ہے
ولادت : 3 مارج 1902 میں آگرہ میں آبائی مکان میں ہوئی، والد کا نام سید اصغر علی شاہ جعفری قادری نظامی
خاندان: "حضرت سید محمد علی شاہ صاحب میکش قادری نیازی آگرے کے ایک ایسے مشہور و ممتاز خاندان کے فردِ بزرگ ہیں جو بلحاظ شرافت و نجابت اور بحیثیت تقدس ظاہر و باطن اپنا جواب نہیں رکھتا اور چونکہ گزشتہ صدی عیسوی میں حامل عنانِ نظم و نسق شہر بھی رہ چکا ہے اس لئے قریب قریب تمام دینی و دنیاوی وجاہتوں کا طرہ امتیاز اپنے سر پر لگائے ہوئے یے اور یہی وجہ ہے کہ آگرہ کی کوئی تاریخ ،کوئی فیملی خاندان اور کوئی شخصیت ایسی نہیں جو انتہائی عظمت اور دلی محبت کے ساتھ اس گھرانے کا نام نہ لیتی ہو "(1)
"چونکہ آگرہ کے تمام سجادگانِ خصوصی کا سلسلہ ارادت آپ کے جد امجد مولوی سید امجد علی شاہ رحمتہ علیہ تک پہنچتا یے اس لئے اس آستانہ کی جبیں سائی "ارض تاج" میں علی العموم باعثِ فخر و مباہات سمجھی جاتی ہے ،اور جناب میکش مسلم طور پر اس خاندان کے وارث اور جانشین مانے جاتے ہیں "
(انوار العارفین تحفئہ طہران، ساداتِ صوفیاء ،تذکر معصومین وغیرہ ) -فضلِ امام
شجرہ نسب :
سید محمد علی شاہ ابن سید اصغر علی شاہ ابن سید مظفر علی شاہ ابن سید منور علی شاہ ابن سید امجد علی شاہ ابن سید مولانا احمد اللہ احمدی ابن سید مولوی الہام اللہ ابن سید خلیل اللہ ابن سید فتح محمد ابن سید ابراہیم قطب مدنی ابن سید حسن ابن سید حسین ابن سید عبد اللہ ابن سید معصوم ابن سید عبید اللہ نجفی ابن سید حسن ابن سید جعفر مکی ابن سید مرتضٰی ابن سید مصطفٰے حمید ابن سید عبدالقادر ابن سید عبد الصمد کاظم ابن سید عبد الرحیم ابن سید مسعود ابن سید محمود ابن سید حمزہ ابن سید عبد اللہ ابن سید نقی ابن سید علی ابن سید محمد اسد اللہ ابن سید یوسف ابن سید حسین ابن سید اسحق المدنی ابن امام المشارق و المغارب امام سید جعفر صادق ابن امام سید محمد باقر ابن امام زین العابدین سید علی بن سید الشہداء امام حسین ابن امیر المومنین امام المتقین سید علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ و علیہ اسلام اخی حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
بیعت و ارادت: حضرت سید محمد علی شاہ قادری نیازی رح کو قطب عالم مدار اعظم حضرت شاہ نیاز احمد نیاز بے نیاز قادری چشتی نشقبندی سہرودی رضی کے نبیرہ و سجادہ نشین دوم سراج السالکین حضرت شاہ محی الدین احمد قادری چشتی نیازی رضہ سے شرف بیعت کم سنی ہی میں حاصل ہوگیا تھا فرماتے ہیں کم عمری ہی میں حضرت سراج السالکین محی الدین احمد نظامی بریلوی سے شرف بیعت نصیب ہوا جس کی وجہ سے زندگی میں بہت بڑا انقاب رونما ہوگیا۔ ان کی زیارت کے بعد مجھے جنید بغدادی اور بیزید بسطامی کی زیارت کی تمانہ نہ رہی آپ کی ساری روحانی طربیت حضرت نے ہی کی 22 بائس سال کی عمر میں خرقہ خلافت سے سرفراز کیا
تصوف کی تعلیم: خانقاہ عالیہ نیازیہ بریلی شریف میں رہکر ذکر اشغال اصول سیکھے سلوک کے درجات تہ کئے تصوف کے رسالہ اصول وقوائد دیگر تعلیم حاصل کئں
درسہ نظامیہ کی تکمیل مدرسہ عالیہ شایہ جامع مسجد آگرہ سے کی تھی ہندوستان کے بڑے بڑے علماء سے درسہ حدیث فقہ تفسیر وغرہ میں یدطولہ رکھتے تھے علم جفر علم رمل کے حامل بھی تعلیم و تحقیق کا کے سفر یوں تو پری زندگی جلتا رہا خاص کر تصوف پہ آپ کو درجہ کمال حاصل تھا تصوف کی قدیم و اصولی شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس سے آپ نہ واقف ہوں یا اس میں بیان کردہ نظریے سے نبلد ہوں
عقیدہ : علامہ محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی کو صوفیانہ مسلک وراست میں ملا اور آپ کا خاندان قادری سلسلے سے وابستہ چلا آتا ہے آپکے جد سید مظفر علی شاہ صوفی بزرگ تھے سلسلہ قادریہ چشتیہ نظامیہ نیازیہ سے تعالق رکھتے تھے اہلِ سنت و الجمعات حنفی فقہ کے مقلد تھے اہلِ بیت کے عاشق اور صحابہ کا احترام کرنے والے تھے فرماتے ہیں
میکش میرا مرتبہ نہ پنچھو
ہوں پنجتنی و چار یاری
حضرت میکش اکبرآبادی صاحب قبلہ وحدت الوجود کے ماننے والے ہیں شیخ اکبر ابنِ عربی رح کے حوالے سے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
" صوفی خصوصًا شیخ اکبر ابنِ عربی کے مقلدین اور جمہور صوفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ظاہر و باطن خدا کے سوائے کوئی موجود نہیں ہے یہ دیکھائی دینے والا عالم جو خدا کا غیر محسوس ہوتا ہے اور جسے ماسوا کہتے ہیں ،ماسوا نہیں ہے نہ خدا کے علاوہ اور غیر ہے بلکہ خدا کا مظہر ہے خدا اپنی لا انتہا شانوں کے ساتھ اس عالم میں جلوہ گر ہے ،یہ غیرت و کثرت جو محسوس ہوتی ہے ہمارا وہم اور صرف ہماری عقل کا قصور ہے یعنی ہم نے اسے غیر سمجھ لیا ہے در حقیقت ایسا نہیں ہے ، حضرت ابن عربی نے کہا ہے "الحق محسوس الخلق معقول" یعنی جو کچھ محسوس ہوتا ہے اور ہمارے حواس جس کو محسوس کرتے ہیں وہ سب حق ہی ہے ، البتہ ہم جو کچھ سمجھتے تھے وہ مخلوق ہے یعنی مخلوق ہماری عقل نے فرض کرلی ہے در حقیقت نہیں"
نظریہ اور مزاج : فرماتے ہیں میں ذاتی حیثیت سے میں نے نی کسی مسلک کو ترجیح دینے کی کوشش کی اور نہ کسی مخصوص گرپ یا گروہ کی نمائندگی کی ہے استدلال کی بات اس سے الگ ہے ،اور وہ کسی کے بھی موافق اور کسی کے بھی خلاف ہو سکتا ہے ،لیکن میں گزرے ہوئے بزرگوں کا ادب اور ان کی خدمت میں حسنِ ظن ،اختلافِ خیال کے باوجود ضروری سمجھتا ہوں ،اور ان کے باہمی اختلاف کو آزادئیے خیال اور صداقت کا مظہر سمجھتا ہوں ، کوئی قوم اور ملک ایسا نہیں ہے جہاں ہادی اور پیغمبر نہ آئے ہوں عرب اور عراق ہو یا ایران اور ہندوستان خدا کی رحمت اور تعلیم سے کوئی محروم نہیں رہ سکتا لیکن ان پیغمبرں کی تعلیمات ہم تک پہنچی ہیں ،ان میں ہمارے فہم اور معتقدات و روایات نے بھی تصرف کیا یے ،جو کبھی تحریف اور کبھی تاویل کی شکل اختیار کرتا آیا ہے ،اور یہیں سے اختلاف شروع ہوجاتے ہیں یہ اختلاف جس طرح ایک ہی مزہب کے ماننے والوں میں باہم ہوتے ہیں اس طرح دوسرے مزاہب کے مقلدین سے بھی ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے مزاجوں صورتوں اور آپ و ہوا کے اختلافات کی طرح ان اختلافات کو بھی فراخ دلی سے برداشت کرنا چاہیے اور جب ہم ساری دنیا کے ہم خیال نہیں تو مہیں بھی ساری دنیا کو اپنا ہم خیال ہو جانے کی توقع نہیں کرنی چاہیئے
بہت بلند ہے میری نگاہ اے میکش
وہ اور ہونگے جو عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں
عبادت : پوری زندگی ذکر الہی اور عبادت کے لیے وقف تھی تصور ذات میں مشغول رہتے آخری عمر تک نماز قضاء نہیں ہوئی ۔ کثرت ذکر سے ایک عالم میں ڈوب نظر آتے، شغل و کثرت ریازت سے چشہرا سرخ رہا کرتا ۔
قلندرانہ انداز: تمام علمی عملی روحانی خاندانی وضعداریوں کے ہوتے ہوئے آپ میں دنیا سے بے رغبتی و بے نیازی تھی شہرت عزت و ناموز سے نفرت کی حد تک پرہیز کرتے اخلاص میں محتاط ہونا صوفیاء کا اجتہاد ہوتا ہے یہ اجتہاد ان کی زندگی کے ہر گوشہ میں دکھائی دیتا ہے دولت، منسب و نام وری سے بہت دور گویا حزب ضرورت رزق سے متمئین ہوں اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں
آزاد ہے کونین سے وہ مرد قلندر
میکش کو نہ دے تاجِ بخارا و سمرقند
عشق اہل بیت : عشق اہل بیت اسلام میں بنیادی عقیدہ ہے صوفیہ کے ایمان اور طرقی درجات کی شرت اول ہے حضور کا ارشاد ہے جس نے میرے اہلِ بیت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔ اس لئے خاندان رسول کا عشق ان کا ورثہ بھی ہے ایمان کا جذ بھی اور نسبی تقاضہ بھی امیر الممنین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہ کی شان میں فرماتے ہیں
یہ قید نام و نشاں لا الہ الا اللہ
یہاں علی ہی علی ہیں وہاں علی ہی علی
حضرت امام حسین علیہ کی شان میں فرماتے ہیں
غلام اس کا ہوں میکش کے جمع ہیں جس میں
خدا و بند و خد بینی و خدا بینی
وصال: ۲۵؍اپریل ۱۹۹۱ء کو آگرہ میں اپنے حجرے میں وصال فرمایا ۔
12 سال پہلے ہی اپنی تاریخ وصال لکھ کر مجموعہ کلام "داستان شب" قطبہ قبر کے عنوان کے ساتھ شایہ کر دی تھی
جو فرش گل پر سو نہ سکا جو ہنس نہ سکا جو رو نہ سکا
اس خاک پہ اس شوریدہ سر نے آخر آج آرام کیا
بستر پر بھی عبادت اور ذکر سے غفلت نہ کی ضعوف و بیماری نے آپکے اخلاق و برتاو میں کوئی فرق نہیں کیا تھا
اپکی عقیدہ مندوں مریدوں کی بڑی تعداد پوری دنیا میں موجود ہے
خلفاء :
حضرت سید معظم علی شاہ عرف محمد شاہ قادری نیازی (فرزند اکبر و جانشین )
حضرت سید چراغ علی قادری
(سجادہ نشین درگاہ فرزند غوث اعظم حضرت شاہ عبداللہ بغدادی رضی )
جناب پروفیسر عنوان چشتی
( پروفیسر: جامیہ ملیہ اسلامیہ دہلی ،و مشہور ادیب و شاعر )
جناب پرفیسر مسعود حسین نظامی
(بریلی شریف یوپی)
جناب قاسم علی نیازی
(حیدرآباد، پاکستان )
وغیرہ
بزم میکش : حضرت کی یاد میں آپ کے جانشین حضرت امجل علی شاہ صاحب قادری نیازی نے 1994-1995 میں بزم میکش قائم کی جو اردو ادب کی قدمت کرنے والی شخصیات و اعزاز و اکرام پیش کرتی ہے نشر و اشاعت کا کام بھی انجام دے رہی ہے
خانقاہ آگرہ: خانقاہ قادریہ نیازیہ آستانہ حضرت میکش سے آزاروں لوگوں کی دینی و دنیاوی حاجات پوری ہوتی ہیں آگرہ میں چار سو 400 سال کم و پیش اس خانقاہ کو ہوچکے ہیں جہاں رشد و ہدایت کا کام جاری و ساری ہے جہاں تصوف کے بنیادی اصول کی پابندی کے ساتھ خدمت خدمت خلق اور تبلیغ کا کام سرانجام دیا جاتا ہے سال پر نذر و فاتع و سلسلہ قادریہ چشتیہ کے مشائخ اعظام حضرات اہل بیت کے سالانہ و مہانہ نزورات کا اہتمام ہوتا ہے شہر آگرہ میں یہ خانقاہ سب سے پرانی اور منفرد مقام کی حامل ہے
تصانیف: :’میکدہ‘، ’حرف تمنا‘(شعری مجموعے)، ’نغمہ اور اسلام‘(جواز سمع)، ’نقد اقبال‘ (تنقید)، ’شرک وتوحید‘(مذہب)، ’حضرت غوث الاعظم‘(مذہب)، ’مسائل تصوف‘(ادب)۔ ’’حرف تمنا‘‘ ،’’نقد اقبال‘‘ اور ’’مسائل تصوف‘‘ پر اترپردیش اردو اکادمی کی طرف سے انعامات ملے۔ وہ شاعر کے علاوہ نقاد اور ماہر اقبالیات و تصوف تھے۔
حضرت سید محمد علی شاہ علامہ میکش اکبرآبادی پر ادیب و شعراء کا اظہار عقیدت :
شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی حضرت میکش اکبرآبادی صاحب ہم اثر اور قریبی لوگوں میں سب سے زیادہ بے تکلف اور مخلص لوگوں میں سے تھے دوران قیام آگرہ آستانہ حضرت میکش پر انکا آنا ہوتا تھا محفل شعر و سخن اور تبصروں کا دور رہتا تھا
گورے چٹے,کھڑا ناک نقشہ۔شگفتہ چہرہ,شائستہ گفتار,ذی علم,شاعر,صوفی صافی,اور اس میں بھی ایسے شرمیلے کہ جب کوئ خوب رو عورت سامنے آجاتی ہے تو ان کی انکھیں جھک کر کہنے لگتی ہیں میرے اللہ کدھر جا کر چھپ جاؤں"
ان کے چہرے پر,پاکیزگئ اخلاق,اور طہارت نفس کی اس قدر شیرینی ہے کہ جب ان کی طرف نگاہ ہوں تو میرے منھ میں قند کی ڈلیاں گھلنے لگتی ہیں۔
وہ مشائخ آگرہ میں سے ہیں,نہ کسی کو مرید بناتے ہیں,نہ کسی کی نظر قبول کرتے ہیں ۔
دنیا کی دو تاریخی ہکلاہٹیں ہیں, ایک تو موسیٰ کی ہکلاہٹ تھی جس پر اللہ میاں کو پیار آتا تھا۔ایک مسیح میکش کی ہکلاہٹ ہے,جس پر مجھ اللہ میاں کے نمائندہ خصوصی کو پیار آتا ہے۔میوہ کٹرے میں ان کا گھر ہے,بالا خانے پر رہتے ہیں,زینہ دن کے وقت بھی گھپ رہتا ہے,کوں نہ ہو کہ ظلمات طے کرکے ناطق حیوان تک رسائ ہوتی ہے۔
جوش صاحب نے اپنے ایک خط میں میکش اکبرآبادی کو برادر ذہنی اور رفیق روحانی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔باغ لکھنؤ سے7 مئ 1941ء کو لکھے جانے والے ایک خط میں جوش صاحب کہتے ہیں:
میکش صاحب ہمارے اور آپ کے راستے کسی قدر ایک دوسرے سے جدا اور ہماری زندگیاں کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر یہ عجیب بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کی طرف کھچنے پر اپنے کو مجبور پاتے ہیں۔ایک دوسرے کو عالمی تصور کے دھندلکے میں محو خرام دیکھا کرتے ہیں میں دل میں آپ کے خط آنے سے دو تین روز بیشتر کہہ رہا تھا کہ یہ میکش بھی عجیب شخصیت کے مالک ہیں۔جو فرصت کے لمحوں میں مدت سے تعاقب کرتے رہتے ہیں شاید آپ اس وقت مجھے خط لکھ رہے ہونگے اور اسی کی لہریں میرے دل سے مس ہوئ ہوں گی"(جوش ملیح آبادی کے خطوط,مرتبہ خلیق انجم,انجمن ترقی اردو ہند 1998ء)۔
ان کا نام ہے محمد علی شاہ,اور تخلص ہے میکش,لیکن مے کو ہاتھ لگانے کی توفیق انھیں آج تک نہیں ہوئ۔میں نے ان پر جو رباعی کہی تھی آپ بھی سن لیں:
حضرت کا ہے ,دنیا سے نرالا دستور
باطن میں تہی دست,بظاہر غففور
میکش ہے تخلص,اور مے سے ہے گریز
برعکس نہند,نام زنگی ,کافور
ان کا بیٹا فلسفے کا ایم۔اے ہے لیک صد حیف کہ باپ کا تصوف ,بیٹے کی تفلسف کو نگل چکا ہے۔تنسیخ زمین داری نے ,لاکھوں زمین داروں کے مانند ,ان کے دل کو بھی بجھا کر رکھ دیا ہے,مگر منھ سے اف تک نہیں کرتے ہیں,اور اپنی قدیم وضع داری کو نباہ تے چلے جا رہے ہیں۔
1967ء میں,ان سے ملنے آگرے گیا تھا۔اب رہ کیا گیا ہے آگرے میں تاج محل اور میکش کے علاوہ۔دونوں کو جی بھر کے دیکھا,اور اس طرح دیکھا کہ شاید یہ آخری دیدار ہو۔
جگر مرادآبادی * جس محفل میں میکش موجود ہوں اس میں ،میں صدارت کروں یہ مجھے گوارا نہیں
*علّامہ نیازؔ فتحپوری*
میکشؔ آگرے کی ادب خیز سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں کی تمام فنّی وزن رکھنے والی ادبی روایات سے واقف ہیں اسی لۓ ان کے کلام میں وزن ہے,فکر ہے,متانت ہے,سنجیدگی ہے۔اور اسی کے ساتھ شگفتگی اور ترنم بھی۔ان کے جزبات جتنے ستھرے ہیں اتنا ہی ٹھراؤ ان کے اظہار میں بھی پایا جاتا ہے۔ نگار 1955ء
*علاّمہ سیمابؔ اکبرآبادی*
فطرت میں علم و فضل کی دنیا لۓ ہوۓ سیرت میں جلوہ ید بیضا لۓ ہوۓ خرقہ بدوش محفل ناز و نیاز میں سجادہ و گلیم و مصلےّٰ لۓ ہوۓ خود میکش اور خود ہی قدح نوش و مے فروش جام و سبو و شیشہ و صہبا لۓ ہوۓ۔
*حامد حسن قادری*
حلیہ دیکھو تو ٹھیٹھ اکبرآبادی اور دل ٹٹولو تو مکّی مدنی و بغدادی و اجمیری۔میکشؔ صاحب شاعری میں اس قدر صحیح مزاق اور لطیف طبیعت رکھتے ہیں کہ بس اس کے آگے خدا کا ہی نام ہے۔
*علاّمہ اثرؔ لکھنوی*
"حرف تمنّا" اردو کے ذخیرے میں بیش بہا اضافہ ہے۔اس کی لطافتیں بیان کرنے کو دفتر درکار ہے۔زبان شعر و نغمہ میں کیسے کیسے رموز,نکات بیان کۓ ہیں اور کیسی کیسی پتہ کی باتیں کہی گئ ہیں۔
آجکل 1956ء
*آل احمد سرور*
آج میکش سے ملاقات میں محسوس ہوا ہند میں صاحب عرفان ابھی باقی ہیں لاکھ برباد سہی بھر بھی یہ ویراں تو نہیں اس خرابے میں کچھ انسان ابھی باقی ہیں۔
*مخمورؔ اکبرآبادی*
جناب میکشؔ مفروضہ ازلی سے مجھے میرؔ و غالبؔ کی صحبت میں فروکش نظر آتے ہیں۔ان کا حضور قلب,ان کا سکون نفس, ان کا ذوق و شوق,ان کی شورش باطن ان کی بصیرت و معرفت ان کی دقت نظر اور ان کا تغزل معیاری و یادگاری اجزاۓ شاعری ہیں۔
* ڈاکٹر سرور اکبرآبادی *
ترے افکار سے اندازہ الہام ہوتا یے
محبت کا تخاطب عشق کا پیغام ہوتا یے
ترے میخانہ عرفاں کا اک اک رند اے میکش
سرور و کیف مستی کا چھلکتا جام ہوتا ہے
-سید فیض علی شاہ جعفری قادری نیازی
No comments:
Post a Comment